آپریشن
ضرب عضب اور قومی جذبہ
یہ دوہزار دو کی بات ہے ۔۔ میں دسویں جماعت میں سائنس کا طالبعلم تھا ۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان پر قابض تھے ۔۔ اور یہی وہ دور تھا جب دینا کا نقشہ تبدیل ہورہا تھا ۔۔ ان تمام صورتحال کے باعث پاکستان میں بھی تیزی سے سیاسی اور سماجی تبدیلی آ رہی تھی ۔۔ افغانستان سے القاعدہ سمیت ازبک اور دیگر غیرملکی دہشت گرد شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ کی تلاش میں جتھوں کی صورت میں داخل ہو رہے تھے ۔۔ پاکستان کے مسند اقتدار پر اس وقت سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف براہجمان تھے ۔۔ جس نے امریکا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے تحت پاکستان کے کئی ائیر بیس تک رسائی دے رکھی تھی جہاں سے فاٹا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈورن حملوں کئے جاتے تھے ۔۔ نوازشریف اور بے نظیر سمیت کئی سیاستدان جلا وطن جبکہ درجنوں قید میں تھے ۔۔ ملک سیاسی افرتفری کا شکار تھا ۔۔ دوسری جانب اس دور میں پاکستان کے سب بڑے صوبے بلوچستان میں شدید خشک سالی کی وجہ سے اس کے کئی اضلاع میں سینکڑوں کی تعداد میں مویشی مر رہے تھے ۔۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایک روز ہمارے اسکول "گورنمنٹ ہائی اسکول ظہراب گل" کے پرنسپل خالد صاحب جو نہایت شفیق اور ریاضی کے استاد تھے ۔۔ انھوں نے ہمیں اسکول اسمبلی کے دوران بتایا کہ بلوچستان شدید خشک سالی کا شکار ہے ۔۔ وہ ہم طلبا سے کچھ یوں گویا ہوئے، " بچوں آپ کو پتہ ہے ہمارے ہی صوبے کی طرح ہمارا ایک اور پیارا صوبہ بلوچستان کو اس وقت ہماری توجہ اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہے ۔۔ وہاں ایک عرصہ سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بدترین خشک سالی نے ڈیرہ جما رکھا ہے ۔۔ اس مشکل گھڑی میں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے" ۔۔ سب سے پہلے ہمارے پرنسپل خالد صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ پیسے نکالے ۔۔ اس طرح قحط زدہ بلوچستان کے لئے ہمارے اسکول میں چندے کا آغاز ہوا ۔۔ پھر کیا تھا ۔۔ ہمارے ضلع سمیت صوبے بھر کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں متاثرین کے لئے چندے شروع اکٹھے ہونا ہوگئے ۔۔ کوئی نقدی دے رہا تھا توکوئی ضرورت کا سامان ۔۔ ہر کوئی اپنی سمجھ اور استطاعت کے مطابق دل کھول کر اپنے بلوچ بہن بھائیوں کی امداد کے جذبہ سے سرشار امداد جمع کرنے لگ گیا ۔۔ مجھے پختونخوا میں جو اس وقت صوبہ این ڈبلیوایف پی کہلاتا تھا، میں لوگوں کا وہ جذبہ ابھی تک نہیں بھولا ۔۔ پوری قوم نے اپنے قحط زدہ بہن بھائیوں کی مدد ملی اور مذہبی جذبے سے کی ۔۔ آخر وہ مشکل وقت گزر ہی گیا ۔۔
اس واقعہ کے چند برس بعد میں گورنمنٹ کالج چارسدہ میں مزید تعلیم کے لئے چلا گیا ۔۔ اور غالباً فورتھ ائیر کا طالب ہوں گا ۔۔ تک ایک اور سانحہ میرے ملک پر ٹوٹ پڑا ۔۔ یہ آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کی ایک ہولناک صبح تھی ۔۔ وقت آٹھ بج کر باون منٹ ۔۔ رمضان کے مبارک مہینے میں ہم انگلش کی کلاس لے رہے تھے ۔۔ ہمارے ہردلعزیز استاذ جہانز یب صاحب لیکچر دے رہے تھے ۔۔ موضوع تھا "ایسٹ اینڈ ویسٹ میں امریکی فارن سروس آفیسر اور مصنف جیمز ڈیلیو سپین کا مضون پشاور" ۔۔ اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ہمیں بہت زور سے جھنجھوڑ دیا ہو ۔۔ ایک بار اور پھر یہ دوسری بار ۔۔ یہ کیا ۔۔ یہ تو زلزے کے جھٹکے ہیں ۔۔ کلاس میں ایک خاموشی سی چھا گئی ۔۔ اس کے بعد کچھ اور محسوس کرتے یا کوئی بات کرتے ۔۔ پوری کلاس بدحواسی کے عالم میں کمرے سے باہر کھولے میدان میں نکل بھاگی ۔۔ زلزلے کے بعد آفٹرشاکس بھی بڑی دیر تک محسوس ہوتے رہے ۔۔ کچھ دیر بعد ہم سب اپنی اپنی کلاسوں میں واپس آ گئے ۔۔ کالج میں ایک بار پھر معمول کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں ۔۔ دوپہر کو ہمیں گھر واپسی پر پی ٹی وی کے ذریعے پتا چلا کہ زلزلے نے اسلام آباد، کشمیر، مانسہرہ اور بالاکوٹ میں تباہی مچا دی ہے ۔۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں ۔۔ امریکی زلزلہ پیماہ ادارے کے مطابق زلزلے کی شدت سات اعشاریہ چھ تھی ۔۔ اس تباہ کن زلزلے میں ایک لاکھ پاکستانی شہری جن بچے، بوڑھے، جوان، اور مرد وخواتین شامل تھے جاں بحق ہوئے ۔۔ ایک لاکھ اڑتیس ہزار زخمی اور پینتیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے ۔۔ اگرچہ ایک طرف سابق فوجی صدر پرویز مشر ف نے دنیا بھر کے ملکوں سے اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کیلئے امداد کی اپیل کی ۔۔ لیکن دوسری طرف پاکستانی قوم میں اس وقت ایک عجیب ہی جذبہ ابھر کر سامنے آ گیا تھا ۔۔ کوئی ضرورت کا سامان اور پیسے جمع کر رہا تھا تو کوئی رضاکار کی صورت امدادی سامان لے کر آزاد کشمیر اور بالاکوٹ پہنچ گیا ۔۔ قوم نے دل کھول کر اپنے زلزلہ متاثرہ بھائیوں کی مدد کی ۔۔ آٹھ اکتوبر کے زلزلے نے پوری قوم کو گویا ایک لڑی میں پرو دیا ۔۔
دوہزار پانچ کے زلزلے کاغم ابھی تازہ ہی تھا کہ قوم ایک اور آزمائش میں مبتلا ہوگئی ۔۔ سوات میں کئی سال سے جاری دہشت گردی کے بعد حکومت نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا۔۔ مئی دوہزار نو میں آپریشن راہ راست شروع ہوا تو تیس لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ۔۔ سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا صوابی، مردان، چارسدہ اور پشاورسمیت ملک بھر میں ولہانہ استقبال کیا گیا ۔۔ کوئی رشتہ دار کے پاس تو کوئی کیمپ میں تو کسی نے اسکول میں پنا ہ لی ۔۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ایک بار پھر قوم نے بھائی چارے کی داستان رقم کی ۔۔ میڈیا، سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیوں نے پورے ملی جذبے کے ساتھ اپنے بے گھر پاکستانیوں کا ساتھ دیا ۔۔ پاکستان کی بقا کی خاطرسوات کے لوگوں نے قربانی دی ۔۔ جنت نظیر وادی سوات سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا اور سوات پھر سے مسکرانے لگا ۔۔
سوات میں آپریشن راہ راست کی کامیابی کے بعد حکومت نے جنوبی وزیرستان سے دہشتگردوں کا کرنے کا فیصلہ کیا اور آپریشن راہ راست کے چند مہینے بعد جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات شروع کر دیا گیا ۔۔ ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں محسود قبائل کے لوگ اپنے گھربار چھوڑ کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوگئے ۔۔ آپریشن میں کامیابی ہوئی یا نہیں اس کا پتہ پانچ سال بعد بھی قوم نہ چل سکا ۔۔ اب تک ہزاروں کی تعداد میں محسود قبائل کے لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے ہیں ۔۔ اور بے خانماں ڈی آئی خان اور ملک کے دیگر شہروں میں کسم پرسی میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں ۔۔ سوات کی طرح جنوبی وزیرستان کے بے گھر افراد کی مدد تو دور کی بات کسی نہ ان کا حال احوال تک پوچھنا گوارہ نہیں کیا ۔۔ غیر سرکاری تنظمیوں کو وہاں جانے اور کام کرنے کی اجازت نہیں ۔۔ محسود قبیلے کے لوگوں کو آج بھی اپنے گھروں کو جانے کی اجازت نہیں ۔۔ کوئی ان کی فریاد پر کان نہیں دھر رہا ۔۔ مدد تو دور کی بات ہے ۔۔ ہم سب صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔۔ کیا محسود کبھی اپنے علاقوں اور اپنے گھروں کو واپس جا بھی سکیں گے ؟ شائد اس سوال کا ابھی کسی کے پاس جواب نہیں ۔۔
آپریشن راہ نجات جاری تھا کہ جولائی کے آخری عشرے میں ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔۔ بالائی علاقوں میں ان بارشوں کا سلسلہ طویل ہوتا گیا ۔۔ دریائے سوات میں کالام سے ابھرنے والا سیلابی ریلہ راستے میں گھروں کو روندتا ہوا دریائے سندھ سے جاملا ۔۔ خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور سندھ ۔۔ جہاں جہاں سے سیلابی ریلہ گزرا اس ہر طرف تباہی ہی تباہی مچا دی ۔۔ اس امتحان میں بھی قوم نے اپنے متاثرین بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑا اور دل کھول کر ان کی مدد کی ۔۔
اب کچھ بات ہوئے جائے موجودہ صورتحال کی ۔۔ گیارہ مئی دوہزار تیرہ کوعام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز نے وفاق میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی ۔۔ انھوں نے آتے ہی طالبان کیساتھ مذاکرات کا اعلان کیا ۔۔ جو آٹھ ماہ کی تاخیر سے شروع ہوئے ۔۔ تاہم اپنی ابتداء کے ساتھ ہی ناکامی سے دوچار ہوئے ۔۔ کیوں کہ شائد دونوں ہی طرف اعتماد کا فقدان تھا ۔۔ جبکہ کچھ نادیدہ قوتیں بھی مذاکرات کے حق میں نہیں تھیں ۔۔ آٹھ ماہ بعد بالآخر حکومت نے شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا ۔۔ اور پندرہ جون سے ضرب عضب کے نام سے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ۔۔ شمالی وزیر ستان میں ابتدعاً فضائی حملے کئے گئے ۔۔ جس سے دہشت گردوں کی قوت پارہ پارہ ہوگئی ۔۔ بیشتر دہشت گرد مارے جانے کی اطلاعات ہیں ۔۔ ایک خاص ٹارگیٹ اچیو کرنے کے بعد اب قبائل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ علاقہ خالی کر کے آئی ڈی پیز کے لئے بنائے گئے کیمپوں میں چلے جائیں ۔۔ تاکہ فضائی حملوں سے حاصل ہوئی کامیابی کو زمینی پیش قدمی کے ساتھ مستحکم کیا جاسکے ۔۔ حکم میں حاکم ہو تو پھر مرگ مفاجات بن جایا کرتی ہے ۔۔ کیا تھا لوگوں نے بے سرسامانی کے عالم میں نقل مکانی شروع کر دی ۔۔ کسی کو گاڑی ملی تو کوئی پیدا ہی اپنی عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کو لے کر نکل کر بنوں کے لئے نکل کھڑا ہوا ۔۔ کسی کو چھت میسر آئی توکسی کے حصے میں سڑک کنارہ ۔۔ اب تک نولاکھ سے زیادہ قبائل کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے ۔۔ لیکن انتظامیہ نقل مکانی کرنے والوں کے لئے مناسب انتظامات کرنے میں تاحال ناکام دیکھائی دیتی ہے ۔۔ قبائلی خواتین جو زندگی میں کبھی بنوں نہیں آئیں ۔۔ آج بنوں کیمپ، اسکول اور کرایے کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں ۔۔ ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ مرد و خواتین شب و روز بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچے بیمار ہیں ۔۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔ جبکہ حکومتی امداد صرف بیانات اور کیمپ میں تصاویر کھینچوانے تک محدد ہے ۔۔ شمالی وزیرستان کے قبائل کا یہ امتحان کب ختم ہوگا ؟ ان کی اپنے گھروں کو واپسی کب ہوں گی ؟ متاثرین کی اپنے علاقوں میں بحالی کا کام کب شروع ہوگا ؟ ہوگا کے بھی نہیں ۔۔ کیا اس آپریشن سے شمالی وزیرستان میں اچھے اور برے طالبان کا صفایا ہو پائے گا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات ہنوز دیئے جانے ہیں ۔۔ لیکن یہاں اس بات پر میں شدید حیران ہوں کہ اس بار نہ تو قوم اور نہ ہی آزاد میڈیا میں دوہزار پانچ، دوہزار نو اور دوہزار دس والا جذبہ کیوں نظر نہیں آ رہا ۔۔ آخر کیوں ؟ کیا اس سوال کا جواب مل سکے گا ؟ شائد نہیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دوہزار دو کی بات ہے ۔۔ میں دسویں جماعت میں سائنس کا طالبعلم تھا ۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔۔ یہ وہ دور تھا جب امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان پر قابض تھے ۔۔ اور یہی وہ دور تھا جب دینا کا نقشہ تبدیل ہورہا تھا ۔۔ ان تمام صورتحال کے باعث پاکستان میں بھی تیزی سے سیاسی اور سماجی تبدیلی آ رہی تھی ۔۔ افغانستان سے القاعدہ سمیت ازبک اور دیگر غیرملکی دہشت گرد شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ کی تلاش میں جتھوں کی صورت میں داخل ہو رہے تھے ۔۔ پاکستان کے مسند اقتدار پر اس وقت سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف براہجمان تھے ۔۔ جس نے امریکا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے تحت پاکستان کے کئی ائیر بیس تک رسائی دے رکھی تھی جہاں سے فاٹا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈورن حملوں کئے جاتے تھے ۔۔ نوازشریف اور بے نظیر سمیت کئی سیاستدان جلا وطن جبکہ درجنوں قید میں تھے ۔۔ ملک سیاسی افرتفری کا شکار تھا ۔۔ دوسری جانب اس دور میں پاکستان کے سب بڑے صوبے بلوچستان میں شدید خشک سالی کی وجہ سے اس کے کئی اضلاع میں سینکڑوں کی تعداد میں مویشی مر رہے تھے ۔۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایک روز ہمارے اسکول "گورنمنٹ ہائی اسکول ظہراب گل" کے پرنسپل خالد صاحب جو نہایت شفیق اور ریاضی کے استاد تھے ۔۔ انھوں نے ہمیں اسکول اسمبلی کے دوران بتایا کہ بلوچستان شدید خشک سالی کا شکار ہے ۔۔ وہ ہم طلبا سے کچھ یوں گویا ہوئے، " بچوں آپ کو پتہ ہے ہمارے ہی صوبے کی طرح ہمارا ایک اور پیارا صوبہ بلوچستان کو اس وقت ہماری توجہ اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہے ۔۔ وہاں ایک عرصہ سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بدترین خشک سالی نے ڈیرہ جما رکھا ہے ۔۔ اس مشکل گھڑی میں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے" ۔۔ سب سے پہلے ہمارے پرنسپل خالد صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ پیسے نکالے ۔۔ اس طرح قحط زدہ بلوچستان کے لئے ہمارے اسکول میں چندے کا آغاز ہوا ۔۔ پھر کیا تھا ۔۔ ہمارے ضلع سمیت صوبے بھر کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں متاثرین کے لئے چندے شروع اکٹھے ہونا ہوگئے ۔۔ کوئی نقدی دے رہا تھا توکوئی ضرورت کا سامان ۔۔ ہر کوئی اپنی سمجھ اور استطاعت کے مطابق دل کھول کر اپنے بلوچ بہن بھائیوں کی امداد کے جذبہ سے سرشار امداد جمع کرنے لگ گیا ۔۔ مجھے پختونخوا میں جو اس وقت صوبہ این ڈبلیوایف پی کہلاتا تھا، میں لوگوں کا وہ جذبہ ابھی تک نہیں بھولا ۔۔ پوری قوم نے اپنے قحط زدہ بہن بھائیوں کی مدد ملی اور مذہبی جذبے سے کی ۔۔ آخر وہ مشکل وقت گزر ہی گیا ۔۔
اس واقعہ کے چند برس بعد میں گورنمنٹ کالج چارسدہ میں مزید تعلیم کے لئے چلا گیا ۔۔ اور غالباً فورتھ ائیر کا طالب ہوں گا ۔۔ تک ایک اور سانحہ میرے ملک پر ٹوٹ پڑا ۔۔ یہ آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کی ایک ہولناک صبح تھی ۔۔ وقت آٹھ بج کر باون منٹ ۔۔ رمضان کے مبارک مہینے میں ہم انگلش کی کلاس لے رہے تھے ۔۔ ہمارے ہردلعزیز استاذ جہانز یب صاحب لیکچر دے رہے تھے ۔۔ موضوع تھا "ایسٹ اینڈ ویسٹ میں امریکی فارن سروس آفیسر اور مصنف جیمز ڈیلیو سپین کا مضون پشاور" ۔۔ اس دوران یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ہمیں بہت زور سے جھنجھوڑ دیا ہو ۔۔ ایک بار اور پھر یہ دوسری بار ۔۔ یہ کیا ۔۔ یہ تو زلزے کے جھٹکے ہیں ۔۔ کلاس میں ایک خاموشی سی چھا گئی ۔۔ اس کے بعد کچھ اور محسوس کرتے یا کوئی بات کرتے ۔۔ پوری کلاس بدحواسی کے عالم میں کمرے سے باہر کھولے میدان میں نکل بھاگی ۔۔ زلزلے کے بعد آفٹرشاکس بھی بڑی دیر تک محسوس ہوتے رہے ۔۔ کچھ دیر بعد ہم سب اپنی اپنی کلاسوں میں واپس آ گئے ۔۔ کالج میں ایک بار پھر معمول کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں ۔۔ دوپہر کو ہمیں گھر واپسی پر پی ٹی وی کے ذریعے پتا چلا کہ زلزلے نے اسلام آباد، کشمیر، مانسہرہ اور بالاکوٹ میں تباہی مچا دی ہے ۔۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں ۔۔ امریکی زلزلہ پیماہ ادارے کے مطابق زلزلے کی شدت سات اعشاریہ چھ تھی ۔۔ اس تباہ کن زلزلے میں ایک لاکھ پاکستانی شہری جن بچے، بوڑھے، جوان، اور مرد وخواتین شامل تھے جاں بحق ہوئے ۔۔ ایک لاکھ اڑتیس ہزار زخمی اور پینتیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے ۔۔ اگرچہ ایک طرف سابق فوجی صدر پرویز مشر ف نے دنیا بھر کے ملکوں سے اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کیلئے امداد کی اپیل کی ۔۔ لیکن دوسری طرف پاکستانی قوم میں اس وقت ایک عجیب ہی جذبہ ابھر کر سامنے آ گیا تھا ۔۔ کوئی ضرورت کا سامان اور پیسے جمع کر رہا تھا تو کوئی رضاکار کی صورت امدادی سامان لے کر آزاد کشمیر اور بالاکوٹ پہنچ گیا ۔۔ قوم نے دل کھول کر اپنے زلزلہ متاثرہ بھائیوں کی مدد کی ۔۔ آٹھ اکتوبر کے زلزلے نے پوری قوم کو گویا ایک لڑی میں پرو دیا ۔۔
دوہزار پانچ کے زلزلے کاغم ابھی تازہ ہی تھا کہ قوم ایک اور آزمائش میں مبتلا ہوگئی ۔۔ سوات میں کئی سال سے جاری دہشت گردی کے بعد حکومت نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا۔۔ مئی دوہزار نو میں آپریشن راہ راست شروع ہوا تو تیس لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ۔۔ سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا صوابی، مردان، چارسدہ اور پشاورسمیت ملک بھر میں ولہانہ استقبال کیا گیا ۔۔ کوئی رشتہ دار کے پاس تو کوئی کیمپ میں تو کسی نے اسکول میں پنا ہ لی ۔۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ایک بار پھر قوم نے بھائی چارے کی داستان رقم کی ۔۔ میڈیا، سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیوں نے پورے ملی جذبے کے ساتھ اپنے بے گھر پاکستانیوں کا ساتھ دیا ۔۔ پاکستان کی بقا کی خاطرسوات کے لوگوں نے قربانی دی ۔۔ جنت نظیر وادی سوات سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا اور سوات پھر سے مسکرانے لگا ۔۔
سوات میں آپریشن راہ راست کی کامیابی کے بعد حکومت نے جنوبی وزیرستان سے دہشتگردوں کا کرنے کا فیصلہ کیا اور آپریشن راہ راست کے چند مہینے بعد جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات شروع کر دیا گیا ۔۔ ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں محسود قبائل کے لوگ اپنے گھربار چھوڑ کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوگئے ۔۔ آپریشن میں کامیابی ہوئی یا نہیں اس کا پتہ پانچ سال بعد بھی قوم نہ چل سکا ۔۔ اب تک ہزاروں کی تعداد میں محسود قبائل کے لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے ہیں ۔۔ اور بے خانماں ڈی آئی خان اور ملک کے دیگر شہروں میں کسم پرسی میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں ۔۔ سوات کی طرح جنوبی وزیرستان کے بے گھر افراد کی مدد تو دور کی بات کسی نہ ان کا حال احوال تک پوچھنا گوارہ نہیں کیا ۔۔ غیر سرکاری تنظمیوں کو وہاں جانے اور کام کرنے کی اجازت نہیں ۔۔ محسود قبیلے کے لوگوں کو آج بھی اپنے گھروں کو جانے کی اجازت نہیں ۔۔ کوئی ان کی فریاد پر کان نہیں دھر رہا ۔۔ مدد تو دور کی بات ہے ۔۔ ہم سب صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔۔ کیا محسود کبھی اپنے علاقوں اور اپنے گھروں کو واپس جا بھی سکیں گے ؟ شائد اس سوال کا ابھی کسی کے پاس جواب نہیں ۔۔
آپریشن راہ نجات جاری تھا کہ جولائی کے آخری عشرے میں ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔۔ بالائی علاقوں میں ان بارشوں کا سلسلہ طویل ہوتا گیا ۔۔ دریائے سوات میں کالام سے ابھرنے والا سیلابی ریلہ راستے میں گھروں کو روندتا ہوا دریائے سندھ سے جاملا ۔۔ خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور سندھ ۔۔ جہاں جہاں سے سیلابی ریلہ گزرا اس ہر طرف تباہی ہی تباہی مچا دی ۔۔ اس امتحان میں بھی قوم نے اپنے متاثرین بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑا اور دل کھول کر ان کی مدد کی ۔۔
اب کچھ بات ہوئے جائے موجودہ صورتحال کی ۔۔ گیارہ مئی دوہزار تیرہ کوعام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز نے وفاق میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی ۔۔ انھوں نے آتے ہی طالبان کیساتھ مذاکرات کا اعلان کیا ۔۔ جو آٹھ ماہ کی تاخیر سے شروع ہوئے ۔۔ تاہم اپنی ابتداء کے ساتھ ہی ناکامی سے دوچار ہوئے ۔۔ کیوں کہ شائد دونوں ہی طرف اعتماد کا فقدان تھا ۔۔ جبکہ کچھ نادیدہ قوتیں بھی مذاکرات کے حق میں نہیں تھیں ۔۔ آٹھ ماہ بعد بالآخر حکومت نے شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا ۔۔ اور پندرہ جون سے ضرب عضب کے نام سے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ۔۔ شمالی وزیر ستان میں ابتدعاً فضائی حملے کئے گئے ۔۔ جس سے دہشت گردوں کی قوت پارہ پارہ ہوگئی ۔۔ بیشتر دہشت گرد مارے جانے کی اطلاعات ہیں ۔۔ ایک خاص ٹارگیٹ اچیو کرنے کے بعد اب قبائل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ علاقہ خالی کر کے آئی ڈی پیز کے لئے بنائے گئے کیمپوں میں چلے جائیں ۔۔ تاکہ فضائی حملوں سے حاصل ہوئی کامیابی کو زمینی پیش قدمی کے ساتھ مستحکم کیا جاسکے ۔۔ حکم میں حاکم ہو تو پھر مرگ مفاجات بن جایا کرتی ہے ۔۔ کیا تھا لوگوں نے بے سرسامانی کے عالم میں نقل مکانی شروع کر دی ۔۔ کسی کو گاڑی ملی تو کوئی پیدا ہی اپنی عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کو لے کر نکل کر بنوں کے لئے نکل کھڑا ہوا ۔۔ کسی کو چھت میسر آئی توکسی کے حصے میں سڑک کنارہ ۔۔ اب تک نولاکھ سے زیادہ قبائل کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے ۔۔ لیکن انتظامیہ نقل مکانی کرنے والوں کے لئے مناسب انتظامات کرنے میں تاحال ناکام دیکھائی دیتی ہے ۔۔ قبائلی خواتین جو زندگی میں کبھی بنوں نہیں آئیں ۔۔ آج بنوں کیمپ، اسکول اور کرایے کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں ۔۔ ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ مرد و خواتین شب و روز بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچے بیمار ہیں ۔۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔ جبکہ حکومتی امداد صرف بیانات اور کیمپ میں تصاویر کھینچوانے تک محدد ہے ۔۔ شمالی وزیرستان کے قبائل کا یہ امتحان کب ختم ہوگا ؟ ان کی اپنے گھروں کو واپسی کب ہوں گی ؟ متاثرین کی اپنے علاقوں میں بحالی کا کام کب شروع ہوگا ؟ ہوگا کے بھی نہیں ۔۔ کیا اس آپریشن سے شمالی وزیرستان میں اچھے اور برے طالبان کا صفایا ہو پائے گا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات ہنوز دیئے جانے ہیں ۔۔ لیکن یہاں اس بات پر میں شدید حیران ہوں کہ اس بار نہ تو قوم اور نہ ہی آزاد میڈیا میں دوہزار پانچ، دوہزار نو اور دوہزار دس والا جذبہ کیوں نظر نہیں آ رہا ۔۔ آخر کیوں ؟ کیا اس سوال کا جواب مل سکے گا ؟ شائد نہیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment