جی
۔جی۔دے
"جی
جی دے"یہ
وہ الفاظ ہیں جو میں نے فون پر اپنے گیارہ
ماہ کے بیٹے ودان خان سے سنے۔ جی جی دے۔ پشتون زبان کے الفاظ ہیں جو اکثر بچوں کے
لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔جی جی استعارے
کے طور پر پشتون زبان میں حشررات کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ دے کی مغنی "ہیں" ہے۔اب یہ الفاظ اس کے منہ سے
کیسے نکلے یہ ایک لمبی کہانی ہے جس کے نفسیاتی ، ثقافتی اور دیگر پہلوہیں ، اس پر
کبھی بعد میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔آج صرف
ایک ایسے مشاہدے کا ذکر کرتے ہیں
جس کا سامنا والدین کو کرنا پڑتاہے۔
والدین کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہیں جب
ان کے ہاں اولاد پیدا ہو،یہ ایک ایسی خوشی ہوتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن
ہے۔اس خوشی کو صرف والدین محسوس کرسکتے
ہیں۔والدین کو دوسری خوشی اس وقت ہوتی جب آپ بچے کو گود میں لیتے ہیں ،
تیسری خوشی اس کے نرم اورنازک سکن کو ٹچ کرنے پر،چوتھی پیار کرتے وقت، پانچویں
خوشی بانڈ بننا اور اس کے بعد خوشیوں کا
ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔وقت گزرنے کیساتھ بچہ نئی چیزین سکھتاہے۔کئی کاموں کو اپنے انداز
سے کرنی کی کوشش کرتاہے۔سب سے پہلے بچے کو ماں کے گود اور بعد میں جھولے کو شوق
ہوجاتاہے۔اپنی دلی خواہش پورا کرنے کے لئے وہ رونے کا ہتھیار استعمال کرتاہے۔بھوک
اوراکیلے پن کو دور کرنے کے اکثر بچہ اسی کا سہارا لیتاہے۔بچہ پہلے اپنے ماں اور
بعد گھرکے دوسرے افراد کے ساتھ تعلق بنا نا شروع کرتاہے۔گھر میں جو بندہ اسے زیادہ
گود لیتاہےاسکی یاری اس کیساتھ شروع
ہوجاتی ہے۔
لیکن
وقت کیساتھ وہ کھانے پینے کی چیزوں میں
دلچسپی لینا شروع کر تاہے۔جو اس کے کھانے پینے
کا خیال رکھتا ہے اس سے دوستی شروع کرتاہے۔ودان گھر میں سب کا لاڈلہ ہیں اس لئے سب گھروالوں
کیساتھ اسکی دوستیاں ہیں ۔ہمارے گھر میں ودان کے آنے سے خوشیوں میں اضافہ
ہواہے۔کسی بھی ناخوشگوار موڈ کو بدلناہو تو اس کے لئے ودان کیساتھ وقت
گزارموڈخودبخوداچھاہونے لگتاہے۔ہر وقت موڈ میں رہنا شاید ایک فطری عمل ہے لیکن
ودان کے ننھے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ گارڈ
گفٹڈہے۔
آج
کل اس کو ایک نیا شوق چھڑاہے وہ ہے گھر سے
باہر رہنے کا۔گھر سے زیادہ وہ باہرخوش ہوتاہے۔اگر بھوک نہ ہو تو گھنٹوں تک باہر رہ
سکتاہے۔باہر وہ صرف مشاہدات کرتاہے۔گھر سے باہر زیادہ دلچسپی کی چیزیں زیادہ لوگ
اور گاڑیاں ہیں ۔ گاڑیوں کو دیکھ کر وہ صرف۔۔تا۔۔تا۔۔تا۔۔۔ کہہ کے پکارتاہے۔کبھی
مکمل خاموشی کیساتھ گاڑیوں کو دیکھتاہے۔
وقت
کیساتھ بچےکیاسیکھتےہیں مزید مشاہدیوں کا
ذکر اگلی قسط میں کرینگے۔
No comments:
Post a Comment