Sunday, October 12, 2014



نامعلوم افراد سے بک فئیر تک 

لڑکپن ہی سے پالی وڈ، لالی وڈ، بالی وڈ اور ہالی وڈ کی فلموں کا مداح رہا ہوں ۔ دوستوں کے ساتھ فلمیں گاوں کے حجروں میں دیکھنا میرے لڑکپن  اور نوجوانی کا پسندیدہ مشعلہ رہا ، جو اب بھی باقی ہے ۔ لڑکپن میں صرف ماردھاڑ والی فلمیں اور ان فلموں کے ہیرو اپنے جانب کھینچ لاتے تھے ۔ فلم میں لڑائی والے سین تعطیلات میں دوستوں کے ہمراہ دریا سوات سے  نکلنے والی نہر پر  پرفارم کرنے کا ایک الگ ہی سرور دیا کرتا جبکہ خود کو ہیرو محسوس کرنے کے نشے میں مبتلا رہتے ۔ دوستوں کے ساتھ اکثر کھیل کے دوران فلمی ڈائیلاگ مارتا اور زیر لب ہندی اور اردو میں لفظوں کی ادائیگی خود کو مسحور کر دیتی ۔ اکثر کسی فلم کے مزاحیہ سین کی طرح اردو اور انگریزی زبان میں ہم جولیوں کو تنگ کرنا ایک شغل رہا ۔ گاوں کے حجروں اور میدانوں میں گزرے وہ سہانے لمحے اب یادوں کا حصہ بن چکےہیں ۔ جن کی مٹھی چبھن اب بھی لطیف درد بن کر سوچوں کو اور ان حسین لمحوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے ۔ زندگی رہی تو پھر کبھی ان قصوں اور یادوں پر تفصیلی بات ہوگی ۔
آج ایک تازہ ترین اور منچھلے موضوع پر لب کوشائی  کے موڈ میں ہوں ۔ گزشتہ عیدوں کی طرح یہ عید بھی میرے آبائی علاقے میں ایک روز پہلے منائی گئی ۔ اس میں قصور کس کا ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا یا پھر مسجد قاسم کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا آج تک پتا نہیں چلا ۔ میں تو بس یہ دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالی دونوں ہی کو امت میں اتحاد کا سبب بنائے ۔ تاکہ وطن عزیز میں ایک ہی دن  عیدیں منائی جاسکیں ۔
پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ عید منائی پھر آفس والوں کے ساتھ  عید منانے  کے لئے اسلام آباد آنا پڑا ۔ اگرچہ آنے کا موڈ تو بالکل نہیں تھا  لیکن باس کا حکم تھا اور نوکری جو کرنی ہے ۔ عید کے روز مجھے دس گھنٹے ڈیوٹی  دینا پڑی ۔ نیوز روم میں دس گھنٹے کی ڈیوٹی اور وہ بھی عید کے روز ، جبکہ آفس  بھی تقریباً خالی ہوتا ہے ، ایسے میں وقت گزارنے کی اذیت کا اندازہ صرف ایک صحافی ہی لگا سکتا ہے ۔ عید کے دوسرے دن  بھی یہی حال تھا ۔ نیوز روم خالی اسلام آباد ویران اور میرا گھر بھی خالی ۔ بندہ کرے تو کیا کرے ۔ ڈیوٹی بور، تو خالی گھر کاٹ کھانے کو دوڑے ۔ بوریت اور تکاوٹ کی وجہ سے نہ کسی کتاب کو ہاتھ لگانے کا من کرے، نہ نیٹ پر بیٹھنے اور ٹی وی دیکھنے کو ہی دل چاہے ۔ بیزاری ہے کہ کچھ کرنے ہی نہیں دے رہی ۔ عید کے تیسرے اور چوتھے روز دفتر سے چھٹی تھی ۔ تب تک  ایک صحافی دوست فیاض احمد عید کی چھٹیاں گاوں میں گزار کر واپس اسلام آباد پہنچ چکے تھے ۔ اسلام آباد کی ویرانی دیکھ وہ بھی پریشان ہوگئے۔ چنانچہ طے پایا کہ کیوں نہ کسی سنیما میں جا کرفلم ہی دیکھی جائے ۔
میرے پڑوسی جناب حسن حسین صاحب جنھیں ہم سب پیار سے سیم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں بھی ہمارے ساتھ آن ملے ۔ اور پھر ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ عید پر ریلیز ہونے والی فلم ” نامعلوم افراد” دیکھی جائے ۔ جس کا بہت چرچا کیا گیا تھا ۔ فلم دیکھنے کا منصوبہ طے پاتے ہی  میں نے فون پر تین ٹکٹیں بک کرائیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کو ٹکٹ کنفرم ہونے کی خوشخبری سنا دی ۔ فلم شروع ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ تینوں نکل پڑے ۔ منزل سینٹورس مال تھا ۔ جو میرے گھر سے صرف پندرہ سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے ۔ ہم مال کے احاطے میں داخل ہوئے ۔ ڈرپ لین کے بجائے ہم نے پارکنگ کی جانب گاڑی کا رخ موڑ لیا ۔ عید کے دن سینٹورس میں کافی رش  ہونے کی وجہ سے  ہمیں گاڑی پارک کرنے میں کافی دشواری  کا سامنا کرنا پڑا ۔ میرے دونوں ساتھی اتر کر ٹکٹ کنفرم کرنے چلے گئے جبکہ میں گاڑی کے لئے پارک تلاش کرنے  کی جدو جہد میں لگ گیا ۔ میں پارکنگ تلاش کرنے میں اور میرے دونوں ساتھی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ قواعد کے مطابق فون پر کی گئی بکنگ پر ٹکٹ فلم شروع ہونے سے پینتالیس منٹ قبل حاصل کرنا لازمی تھا ۔ ورنہ بکنگ منسوخ کر دی جاتی ہے ۔ آدھ گھنٹے کی مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر میں  گاڑی پارک کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا ۔ گاڑی پارک کرنے میں شاید اتنی جدوجہد کولمبس کو امریکا دریافت کرنے میں بھی نہ لگی ہوگی ۔ خوشی کی کیفیت ابھی نشے کا روپ نہیں بنی تھی کہ دونوں کا ٹیکسٹ پیغام ملا کے ٹکٹ نہیں  ملے ۔ میسج پڑھ کر تو دل چاہا دونوں کو واصل جہنم کر دوں ۔  لیکن یہ میرے بس میں نہیں تھا ۔ اسی دوران میں بھی مال کے گراونڈ فلور پر جا پہنچا ۔  “نامعلوم افراد” نہ دیکھنے کا صدمہ نڈھال کر گیا ۔ نامعلوم افراد کا غم تو سارے ملک کو ہی ہے ۔ شاید سوا ت اور بلوچستان کے نامعلوم افراد ایک دن اپنے پیاروں سے آن ملیں ۔ لیکن میں اس وقت فلم ”نامعلوم افراد” کے مس ہونے پر  کافی رنجیدہ تھا ۔  اسی اداسی میں فیصلہ ہوا کہ چلو فلم نہ سہی وینڈوشاپنگ ہی کر لی  جائے ۔ کافی دنوں سے اپیل کا لیپ ٹاپ لینے کی منصوبندی کر رہا تھا ۔ لیکن شاید آج  کا دن صرف مایوسیوں کے لئے مختص تھا ۔ سنٹورس میں اپیل کی واحد شاپ بند تھی ۔ یہ ایک گھنٹے میں یہ مسلسل دوسری ناکامی تھی ۔
آوارگی کرتی میری نظریں اچانک بک فیئر شاپ پر ٹھہر گئیں ۔ بک شاپ پر کافی رش تھا ۔ میں بھی رش میں گم ہونا جانا چاہتا تھا کہ خیال آیا کہ اوپر منزل پر تو سیم اور فیاض انتظار کر رہے ہیں ۔ میں نے پہلے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اور پھر کال کرکے دونوں کو نیچے آنے کا کہا ۔ وہ دونوں  بھی بک شاپ آگئے ۔ کتابوں کی قیمتیں دیکھ کر بہت متجسس ہوگیا ۔ عام  طور پر اسلام آباد میں صرف سعید بک شاپ ہی ایک ایسی بک شاپ ہے جہان سے اچھی کتابیں مل جاتی ہیں ۔ لیکن خاصی مہنگی ہوتی ہیں ۔یہاں کتابیں  کافی سستی تھیں ۔ میں انگریزی کا ناول تلاش کر رہا تھا ۔ کافی تلاش بسیار کرنا پڑی ۔ ایک اسٹال پر صنف نازک کو کتابوں میں دلچسپی لیتے دیکھ کرساری کسل مندی اور تھکاوٹ دورہو گئی ۔ بچے والدین  کی مدد سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی مدد آپ کے تحت اردو اور انگریزی ادب  میں من پسند کتاب تلاش کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے تھے ۔ کتابوں کی دنیا میں قدم رکھنا اور پھر اس میں گم ہوجانا کسی عشق لیلیٰ سے کم نہیں ۔
میری نگاہیں کسی عقاب کی مانند پوری شاپ میں گردش کر رہی تھیں ۔ جہاں لیوٹالسٹیئی کا “وار اینڈ پیس” اور خالد حسینی کی “دی کائٹ رننز” کو تلاش کر رہی تھیں ۔ دکان  کا کونا کونا چھان مارا ۔ شاپ کیپر اور سیلز اسٹاف کی نظریں میرا اور میرے دوستوں کا پیچھا کر رہی تھیں  ۔ میں بھی عجیب محسو س کررہا تھا ۔ تقریبا آدھا گھنٹہ تلاش بسیار کے بعد سیم نے ہانک لگائی ۔ جانی  آپ کو جس کی تلاش ہے وہ سب کچھ یہاں موجود ہے ۔ میں کسی لڑاکا جیٹ طیارے کی سی رفتار سے اس کے پاس جا پہنچا ۔ دلی مراد بر آئی تھی ۔ مطلوبہ کتابیں ملنے پر ساری مایوسی اور کسل مندی کافور ہوگئی ۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ “نکلے تیری تلاش میں” ، افغان ادیب احمد حسینی کی کتاب “کائٹ رننر” اور “وار اینڈ پیس”  یہاں میرے انتظار میں تھیں اور میں ادھر ادھر سر مار رہا تھا ۔ کتابوں کے بل ادا کئے ۔ اور تھیلا اٹھائے “نامعلوم افراد” دیکھے بغیر لوٹ آئے ۔ “نکلے تیری تلاش میں شروع کر دی ہے ۔ جونہی مکمل کر لوں گا اس کے بارے میں آپ سے شیئر کرنے کے لئے بذریعہ تحریر حاضری دوں گا ۔

No comments:

Post a Comment